Tuesday, January 31, 2017

Seven Wonders of Hunza

The Second (2nd) Wonder of Hunza Valley

The Baltit Fort
A close look of Baltit Fort Hunza

Historical Background of Baltit Fort-Hunza
 
Baltit Fort in Mid Summers
In olden times a number of small independent states existed in the history of Northern Areas of Pakistan. Among them Hunza and Nager were the traditional rival states, situated on opposite sides of the Hunza (kanjut) river. The rulers of these two states, known as Thámo / Mirs (Thάm=S), built various strongholds to express their power.
According to historical sources {Ref: Tarikh-e-Ehd Atiiq Riyasat Hunza by Haji Qudratullah Baig, Pub: S.T.Printers Rawalpindi 1980 Pakistan}, the Hunza rulers initially resided in the Altit Fort, but later as a result of a conflict between the two sons of the ruler Sultan, Shah Abbas (Shάboos) and Ali Khan (Aliqhάn), Shaboos shifted to the Baltit Fort, making it the capital seat of Hunza. The power struggle between the two brothers eventually resulted in the death of younger one, and so Baltit Fort further established itself as the prime seat of power in the Hunza state.


The rich beauty of Baltit Fort can be traced to over seven hundred 700 years ago. Ayasho II, Tham / Mir of Hunza in the early 15th fifteenth century married Princess Shah Khatoon (Sha Qhatun) from Baltistan (In Moghul history Baltistan is called Tibet Khurd mean, little Tibet), and was the first to modify the face of Altit and, subsequently Baltit Fort. Baltistan meaning land of Balti people had a very strong cultural and ethnical relation with the Ladakh territory of India then. Consequently, the structure of Baltit Fort was influenced by the Ladakhi / Tibetan architecture, with some resemblance to the Potala palace in Lahasa. Then additions, renovations and changes to the building were being made through the centuries by the long line of rulers of the Hunza that followed.
A veritable treasure house for ancient forts, the Northern Areas of Pakistan lost most of its glorious built heritage around the 19th century as a result of the destructive attacks by the Maharja of Kashmir.
  

View of the Hunza Valley and Rakaposhi peak form Baltit Fort.

However, in this regard people of Hunza were exceptionally fortunate to successfully defend against the invasions of Maharaja Kashmir four times.
{Ref: Tribes of Hindoo Koosh by John Biddulph Chapter: II Page: 29, Pub: The Superintendent of Government Printing-Calcutta India 1880, Reprint: Ali Kamran Publishers, Lahore-Pakistan 1995. First attack 1848, 2nd attack: 1865, 3rd attack 1866 and 4rth attack 1888 Ref: Beg Qudratullah}
One of the biggest changes in the structure of Baltit Fort came with the invasion of British in December 1891. Tham / Mir Safdarali Khan, ruler of Hunza his wazir Dadu (Thara Baig III), fled to Kashgar (China) for political asylum with their fellows and families. With the conquest of Hunza and Nager states by the British forces in December 1891, the fortified wall and watch towers of the old Baltit village and watch towers of the Baltit Fort on its north-western end were also demolished as desired by the British authorities.

Tuesday, January 24, 2017

Seven Wonders of Hunza

The Seven Wonders of Hunza are as follows:



1. Altit Fort, Altit Village Hunza

Altit Fort is an ancient fort at Altit town in the Hunza valley in Gilgit-BaltistanPakistan. It was originally home to the hereditary rulers of the Hunza state who carried the title Mir, although they moved to the somewhat younger Baltit fort nearby three centuries later. Altit Fort and in particular the Shikari tower is around 1100 years old, which makes it the oldest monument in the Gilgit–Baltistan.


Origin


The word Altit means this side down and the area around the fort is inhabited by Burusho people. The people of Altit are said to belong to the white Huns, although not much research has gone into the matter. There are several theories about their origin but local indigenous origin holds much value among the people. It is also said that the present language Bruchiski was brought here by the white Huns in 47 A.D but there is no link between Burushaski and any other language of today. According to the legend the first name for Altit village was Hunukushal, meaning the village of Huns. The Huns came from the Huang-Ho valley in China. The name later changed to Broshal, translated as a village of Bruchiski speakers. They were spirit worshipers as Shamanism was in practice and also followed Buddhism and Hinduism. In the 15th century Islam was introduced. Around 1830 in turn many converted to Ismailism.

Restoration by AKDN

The Altit Fort was in great disrepair, but has recently been restored by the Aga Khan Trust for Culture Historic Cities Support Programme and the Government of Norway. It is characterized by small rooms and low portals with exquisite wood carvings. Japan has contributed to the renovation of the surrounding old village. Altit Fort is a tourist site which has been open to the public since 2007.

Wednesday, January 18, 2017


ہنزہ بھی حکومت کا منتظر ہے (بشکریہ ایکسپریس

جاوید چوہدری
ہنزہ کی زیادہ تر آبادی اسماعیلی ہے،پرنس کریم آغا خان ان کے روحانی پیشوا ہیں لہٰذا یہاں آغا خان فاؤنڈیشن نے بے شمار ترقیاتی کام کیے،فاؤنڈیشن نے 35 برس قبل علاقے کی خواتین کو خودمختار بنانا شروع کیا،دیہات میں ’’کمیٹی سسٹم‘‘ شروع ہوا،خواتین ہر ہفتے پانچ پانچ روپے جمع کرتیں،یہ رقم کسی ایک خاتون کو دے دی جاتی اور وہ اس سے اچار،چٹنیاں اور مربعوں کا کاروبار شروع کر لیتی،یہ کوشش کامیاب ہو گئی۔کامیاب خواتین کو آغا خان فاؤنڈیشن نے بلاسود قرضے دینا شروع کر دیے،یہ قرض دو شرائط پر دیے جاتے تھے،ایک،مقروض شخص یہ قرضہ قسطوں میں واپس کرے گا،دو،قرضہ ادا ہونے کے بعد یہ شخص منافع کا ایک حصہ اس فنڈ میں جمع کرائے گا جس سے ضرورت مندوں کو قرضے دیے جاتے ہیں، یہ اسکیم بھی کامیاب ہو گئی اور یوں لوگ خوشحال ہو گئے،ہنزہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں کوئی شخص غریب نہیں،علاقے کا ہر خاندان،ہر گھرانہ خوشحال ہے،آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی یہ ملک کا واحد حصہ ہے جس میں کوئی گداگر،کوئی فقیر نہیں‘یہاں آپ کے سامنے کوئی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔علاقے کی بے شمار روایات قابل تقلید ہیں،مثلاً یہ لوگ اپنی کمیونٹی کو روزانہ وقت دیتے ہیں،یہ روایت ’’نذرانہ‘‘کہلاتی ہے،نذرانہ وقت اور علم کا ’’کمبی نیشن‘‘ہے،کامیاب لوگ روز چند منٹ نکال کر دوسروں کو اپنے علم،اپنے ہنر اور اپنے تجربات سے مستفید کرتے ہیں،یہ لوگ اپنے بچوں کو روزانہ جماعت خانہ بھی بھجواتے ہیں،جماعت خانے میں بچوں کو ہاتھ دھونے،کنگھی کرنے،دوسروں کو دیکھ کر مسکرانے،بات کرنے اور کام کی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں،یہ لوگ تعلیم کو بہت فوقیت دیتے ہیں،فاؤنڈیشن نے پورے علاقے میں شاندار اسکول بنا رکھے ہیں،یہ تمام اسکول ’’انگلش میڈیم‘‘ہیں،بچوں کو بینچوں پر بٹھا کر عزت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
فاؤنڈیشن اساتذہ کو باقاعدہ ٹریننگ دیتی ہے،استاد سال سال ٹریننگ لیتے ہیں،بچیوں کی تعلیم لازمی ہے،کوئی اسماعیلی اپنی بچی کو تعلیم نہ دے یہ ممکن ہی نہیں،ہنزہ کی تمام بچیاں تعلیم یافتہ ہیں،یہ ہنر مند بھی ہیں اور ان کی انگریزی کا لیول بھی بہت اونچا ہے،میں نے جتنا اعتماد اور بے خوفی ہنزہ کی خواتین میں دیکھی اتنی ملک کے کسی دوسرے حصے میں نظر نہیں آئی،ہنزہ کی خواتین دن ہو یا رات بے خوفی سے پھرتی ہیں،میں نے کسی عورت کے چہرے پر بے اعتمادی،احساس کمتری یا خوف نہیں دیکھا،یہ مشاہدہ حیران کن تھا،ہنزہ میں شرح خواندگی 97 فیصد ہے۔بچے ایف اے،ایف ایس سی کے بعد فاؤنڈیشن کے اسکالر شپ پر تعلیم کے لیے بڑے شہروں میں جاتے ہیں،ان میں سے بے شمار نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں لیکن یہ ڈگری کے بعد اپنے ملک میں واپس ضرور آتے ہیں،یہ گلگت کی قراقرم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں یا پھر پانچ دس سال اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرتے ہیں،ہنزہ کے نوجوان بہت محنتی اور اسمارٹ ہیں،یہ لوگ لباس پہننے اور لوگوں سے میل ملاقات کے ایکسپرٹ ہیں،یہ آپ کو دیکھ کر مسکرائیں گے،آپ کو بلاوجہ ڈسٹرب نہیں کریں گے،آپ ان سے ایڈریس پوچھیں گے تو یہ آپ کی باقاعدہ رہنمائی کریں گے،یہ وعدہ بھی پورا کریں گے،آپ نے ڈرائیور کو آٹھ بجے کا وقت دیا ہے تو یہ ٹھیک آٹھ بجے آپ کے دروازے پر ہو گا۔ہنزہ کے لوگ اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن سمیع کی بہت تعریف کر رہے تھے،پتہ چلا،یہ لوگوں کو اپنے دفتر نہیں بلاتے بلکہ خود ان کے پاس چلے جاتے ہیں،انھوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ہوٹلوں،ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی طے کر دیے ہیں،یہ کرائے نامے تمام ہوٹلوں اور ریستورانوں میں آویزاں ہیں،ٹرانسپورٹ کے ریٹس بھی گاڑیوں اور جیپوں کی اسکرینوں پر چپکا دیے گئے ہیں،مالکان اس دستاویز کا احترام کرتے ہیں،یہ اضافی کرایہ وصول نہیں کرتے،ہنزہ صرف شہر نہیں ،یہ ایک لت ہے،ہنزہ کے لوگ بڑے شہروں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں گھر بناتے اور کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ اپنا آبائی گاؤں اور گھر نہیں چھوڑتے۔یہ سال میں چند دن ہنزہ میں ضرور گزارتے ہیں،مجھے یہاں فرحت اللہ بیگ بھی ملے،یہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں لیکن یہ ہنزہ میں ایمبیسی ہوٹل کے نام سے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی ’’چین‘‘ چلا رہے ہیں،کریم آباد میں ان کا بہت خوبصورت ہوٹل ہے،مجھے اس ہوٹل کے ٹیرس پر کھانا کھانے کا موقع ملا،وہ کمال جگہ اور کمال وقت تھا،بیگ صاحب بہت اچھے انسان ہیں،یہ تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن ہنزہ چند مسائل کا شکار بھی ہے،یہ تمام مسائل حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں مثلاً ہنزہ بجلی کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی بہت بڑی نعمت سے نواز رکھا ہے مگر اس کے باوجود یہاں بجلی نہیں،پورا شہر جنریٹرز پر چل رہا ہے،آپ کسی طرف نکل جائیں آپ جنریٹر کا شور سنیں گے ’’ایگل نیسٹ‘‘میں بھی 24 گھنٹے جنریٹر کی ’’ٹھک ٹھک اور ٹھررٹھرر‘‘کی آوازیں آتی رہتی تھیں،یہ آوازیں سیاحوں کی جمالیاتی حسوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں،حکومت اگر معمولی سی توجہ دے دے،یہ ہنزہ کے لیے بجلی کا الگ بندوبست کر دے،یہ ہنزہ کے پانیوں سے ہنزہ کے لوگوں کے لیے بجلی بنانا شروع کر دے تو لوگ بھی دعائیں دیں گے اور سیاح بھی سکھ کا سانس لیں گے،ہنزہ کے دیہات میں سڑکوں کی حالت بھی اچھی نہیں۔’’ایگل نیسٹ‘‘ہنزہ کے لیے ’’ایفل ٹاور‘‘کی حیثیت رکھتا ہے،ہنزہ آنے والا ہر شخص ایگل نیسٹ ضرور جاتا ہے لیکن اس کی سڑک کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے،چڑھائی زیادہ ہے،سڑک چھوٹی ہے،موڑ خطرناک ہیں،حکومت چند کروڑ روپے خرچ کر کے سڑک کھلی کر سکتی ہے،سڑک کی مرمت کے لیے بھی سالانہ بجٹ مختص ہونا چاہیے،حکومت خواہ ٹول ٹیکس طے کر دے لیکن سڑک کی مرمت اور وسعت دونوں ضروری ہیں،سست اور خنجراب روڈ پر واش رومز،چائے خانے اور کچرے کی صفائی کا بندوبست نہیں ،حکومت اس پر بھی توجہ دے،آپ یہ ذمے داری بارڈر سیکیورٹی فورس کو بھی سونپ سکتے ہیں۔گلگت بلتستان کبھی غیر ملکی سیاحوں کا سیاحتی ’’ویٹی کن‘‘ہوتا تھا،گلگت میں مقامی لوگ کم اور غیر ملکی زیادہ نظر آتے تھے،نائین الیون کے بعد غیر ملکی سیاح غائب ہوگئے ہیں،اگر اب کوئی مقدر کا مارا انگریز ادھر آ نکلتا ہے تو ہمارے خفیہ ادارے اس کی مت مار دیتے ہیں،اسے جگہ جگہ روکا اور ذلیل کیا جاتا ہے چنانچہ وہ بھی واپس چلا جاتا ہے،حکومت کو اس معاملے میں بھی کوئی واضح پالیسی بنانی چاہیے،آپ سیاح سے تمام معلومات اسلام آباد میں لے لیں اور پھر اسے کوئی شخص تنگ نہ کرے،گلگت کے لیے فلائیٹس کم ہیں،یہ فلائیٹس بھی سیاحتی دنوں میں بڑھا دی جائیں۔پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی چھوٹے جہاز چلانے کی اجازت دے دی جائے،ملک میں پچھلے چند برسوں میں سیاحت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا،اس کی تین وجوہات ہیں،ملک میں دہشت گردی میں کمی آئی،لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو سیروسیاحت کی ترغیب دی،لوگ فیس بک کا ’’اسٹیٹس‘‘دیکھ کر بھی شمالی علاقہ جات کی طرف نکل رہے ہیں،یہ رش عید کے دنوں میں اڑدہام بن جاتا ہے،سڑکیں بند ہو جاتی ہیں،ہوٹلوں میں کمرے نہیں ملتے اور خوراک کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔حکومت کو اس ’’ٹرینڈ‘‘پر بھی نظر رکھنی چاہیے،یہ ملک میں ’’سیاحتی اتھارٹی‘‘بنائے،یہ اتھارٹی سیاحتی زون قائم کرے،یہ ہوٹل ڈیزائن کرے،انفرااسٹرکچر پر رقم خرچ کرے،ہوٹلوں،ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کے لیے قرضے دے اور سیاحتی ویب سائیٹس بنوائے،یہ اقدامات سیاحت،انڈسٹری اور ملک کے امیج تینوں کے لیے بہتر ہوں گے،آپ فرض کیجیے ہنزہ میں 40 ہوٹل ہیں،ٹوٹل کمرے 400 ہیں اور فرض کر لیجیے ان کمروں میں کل ہزار بیڈز ہیں،حکومت ہنزہ کی ویب سائیٹ بنائے اور یہ بیڈز،یہ کمرے اور یہ ہوٹل ویب سائیٹ پر چڑھا دے۔ٹرانسپورٹ بھی ویب سائیٹ پر دے دی جائے اور سڑکوں اور موسم کی صورتحال بھی،سیاح تمام بکنگز ویب سائیٹ پر کریں،اس سے سیاح،خاندان اور ہوٹل انتظامیہ بھی پریشانی سے بچ جائے گی اور حکومت بھی لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے گی،یہ پریکٹس دنیا کے بے شمار ممالک میں ہو رہی ہے،ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہم شاید ملک میں کوئی اچھا کام کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ نہیں ٹھہریئے !ہم شاید سرے سے کام ہی نہیں کرنا چاہتے چنانچہ اسلام آباد ہو یا ہنزہ پورا ملک حکومت کا منتظر ہے،ہم سب انتظار کر رہے ہیں